Allama Iqbal poetry
Allama Iqbal was a renowned poet, philosopher, and thinker of the early 20th century. He is widely regarded as one of the most influential poets in South Asian literature, particularly in the Urdu language. Allama Iqbal’s poetry is characterized by its rich imagery, profound philosophical ideas, and deep spirituality.Allama Iqbal’s poetry is a reflection of his passion for Islam and his vision of a united Muslim community. His works inspire and encourage individuals to explore the deeper meaning of life and find their purpose in it. Through his verses, he aims to awaken people’s consciousness and inspire them to take action towards self-improvement and betterment of society.
کھول آنکھ ، زمیں دیکھ،فلک دیکھ، فِضا دیکھ
مشرق سے نِکلتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
Khol ankh, zameen dekh, falak dekh fiza dekh
mashriq se nikalty huwy suraj ko zara dekh
_________________________________
پھُول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جِگر
مردِناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
Phool ki patti se kat sakta hai heeray ka jigar
mard e nadan per kalam narm o nazuk bey asar
__________________________________
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
nahi hai na-umeed iqbal apni kasht e veeran say
zara num ho tu ye mitti bari zarkhez ha saqi
_____________________________________
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
ho deed ka jo shauq tu aankhon ko band kar
hai dekhna yahi keh na dekha karay koi
تٌو رازِ کٌن فِکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا رازداں ہو جا خٌدا کا ترجماں ہو جا
tu raaz e kun fikan hai apni aankhon par ayan ho ja
khudi ka raazdan ho ja khuda ka tarjuman ho ja
Allama Iqbal best poetry in urdu
Allama Iqbal is one of the most prominent poets and intellectuals in the history of South Asia. His poetry is known for its depth, passion, and thought-provoking ideas.
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
________________________\
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرت
ا پُردم ہے اگر تو‘ تو نہیں خطرہ اُفتاد
________________________
تقدير امم کيا ہے، کونی که نہيں سکتا مومن
کي فراست ہو تو کافي ہے اشارا
_________________________
افراد کے ہاتھوں ميں ہے اقوام کي تقدير
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
________________________
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
_________________________
ہزاروں سال نرگس اپنی بینوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے
ہوتا ہے چمن میں دید اور پیدا
_________________________
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
__________________________
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہي باتیں ہیں
__________________________
قوم مذہب سے ہے’ مذہب جو نہیں’ تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں’ محفل انجم بھی نہیں
___________________________
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے
والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
___________________________
بندہ و صاحب و محتاج و غني ایک ہوئے تیری
سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
_________________________
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
_________________________
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے
خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
_________________________
Allama Iqbal most famous poetry in urdu
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو تب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
__________________________
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
_________________________
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
_________________________
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
__________________________
روِشِ مغربی ہے مد نظر
وضِع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
______________________
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈونڈھ لی قوم نے فلاح کی راہ
__________________________
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو تم مسلمان بھی ہو؟
___________________________
دل میں خدا کا ہونا لازم ہے، اقبال
سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
___________________________
اپنے کردار پہ ڈال کہ پردہ اقبال ہر
شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے
___________________________
عقل عیار ہے، سو بھینس بنا لیتی ہے عشق بے
چارہ نہ ملاہے نہ زاہد نہ حکیم
___________________________
عقل عیار ہے، سو بھینس بنا لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ ملاہے نہ زاہد نہ حکیم
___________________________
کہاں وفا ملتی ہے مٹی کے ان حسین انسانوں سے ” اقبال “
یہ لوگ بغیر مطلب کے خدا کو بھی یاد نہیں کرتے
___________________________
مت کر بھروسہ ان پرندوں پے
جب پر نکل آتے ہیں تو یہ اپنا آشیانہ بھول جاتے ہیں
__________________________
Allama Iqbal, Shikwa“
The Complaint” is a poem written by Allama Muhammad Iqbal, a renowned poet, philosopher, and politician from Pakistan. The poem is an expression of the speaker’s frustration and disillusionment with the current state of the Muslim community.
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ گزر رکھتی ہے
عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالۂ بیباک مرا
پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سر عرش بریں ہے کوئی
چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی
کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا
غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے
عالم کیف ہے دانائے رموز کم ہے
ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ ترا
شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہرو منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے جوہر قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیم پدر اور پسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے
حرم کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے
وہ بھی دن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا
نازش موسم گل لالۂ صحرائی تھا
جو مسلمان تھا اللہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجائی تھا
کسی یکجائی سے اب عہد غلامی کر لو
ملت احمد مرسل کو مقامی کر لو
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبع آزاد پہ قید رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہہ دو یہی آئین وفاداری ہے
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے
صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
کیا کہا بہر مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطر ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسیٰ ہی نہیں
منفعت ایک ہے اس قوم کا نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کون ہے تارک آئین رسول مختار
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار
ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب
زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب
امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے
واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی لوث مراعات سے پاک
شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک
خود گدازی نم کیفیت صهبایش بود
خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود
ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطا بیں وہ خطاپوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم
تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی
خودکشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار
اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار
اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے
ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا
قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے
گلۂ جور نہ ہو شکوۂ بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو
عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے
ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں
سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
نخل شمع استی و در شعلہ دو ریشۂ تو
عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے
چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری
وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا
رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے
بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے
چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعنا لک ذکرک دیکھے
مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں